کے کے مینن: اداکاری کی گہرائی میں ڈوبا ہوا ایک خاموش م
گر عظیم فنکار
بالی ووڈ میں جہاں شہرت، گلیمر اور فین فالوئنگ کو کامیابی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے، وہیں ایک فنکار ایسا بھی ہے جو ان سب سے الگ، صرف اپنے فن سے عشق کرتا ہے۔ وہ ہے — کے کے مینن۔ ایک ایسا اداکار جسے نہ لائم لائٹ کی خواہش ہے، نہ ہی وہ میڈیا کی چمک دمک کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اس کی پہچان ہے اس کی اداکاری کی شدت، مکالموں کی گونج، اور کرداروں میں اس کی گمشدگی۔
کے کے مینن نے کبھی آسان راستے نہیں چنے۔ اس نے ہمیشہ وہ کردار نبھائے جن میں گہرائی تھی، چیلنج تھا، اور سب سے بڑھ کر انسان کی اصل پیچیدگیاں چھپی ہوئی تھیں۔ فلم ‘شوریا’ میں بریگیڈیئر رودر پرتاپ سنگھ کا سخت گیر اور زہریلا کردار ہو یا ‘گُلال’ میں جنونی قوم پرست ڈوکی بانا کا دل دہلا دینے والا روپ — مینن ہر کردار میں اس طرح ڈھل جاتا ہے کہ آپ کردار اور اداکار میں فرق ہی بھول جاتے ہیں۔
اس کے کردار صرف پردے تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ناظرین کے ذہنوں میں کندہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں چھپی شدت، آواز میں موجود زہر یا دکھ، اور اس کی باڈی لینگویج سب مل کر ایک مکمل تجربہ بن جاتے ہیں — ایسا تجربہ جو بالی ووڈ کے روایتی ہیروز سے کئی میل دور ہے۔ جب لوگ سلمان یا شاہ رخ کی بات کرتے ہیں تو وہ سٹارز کی بات کرتے ہیں، لیکن کے کے مینن ایک فنکار ہے — فنکاروں کا فنکار، جس کی اداکاری جھیل کی گہرائی جیسی خاموش، پر اثر اور خطرناک حد تک حقیقی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کے کے مینن کا آغاز اشتہارات کی دنیا سے ہوا۔ پونے یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعد اس نے تھیٹر کا رخ کیا، جہاں اس کی ملاقات نودیپتا بھٹاچاریہ سے ہوئی جو بعد میں اس کی شریک حیات بنی۔ 1995 کی فلم ‘نسیم’ سے اس نے فلمی کیریئر کا آغاز کیا، مگر اصل پہچان اسے ملی 2004 کی فلم ‘بلیک فرائیڈے’ اور 2005 کی ‘سرکار’ سے۔ پھر آیا وہ دور جہاں اس نے ‘شوریا’، ‘گُلال’، ‘حیدر’ اور ‘بے بی’ جیسی فلموں سے اداکاری کا ایک نیا معیار قائم کیا۔
صرف فلمیں ہی نہیں، ویب سیریز کی دنیا میں بھی کے کے مینن نے کمال دکھایا۔ ‘اسپیشل اوپس’ میں ہمت سنگھ کا کردار، ‘فرازی’ میں منصور دلال کا رول، اور حالیہ سیریز ‘مرشد’ میں ان کی موجودگی نے ثابت کر دیا کہ چاہے پردہ بڑا ہو یا چھوٹا، جب بات خالص اداکاری کی ہو تو کے کے مینن کا کوئی ثانی نہیں۔
ایوارڈز کی بات کی جائے تو انہیں ‘حیدر’ میں معاون کردار پر فلم فیئر اور آئیفا ایوارڈز سے نوازا گیا۔ لیکن شاید ان کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ وہ محبت ہے جو انہیں سنجیدہ سینما کے چاہنے والوں سے ملتی ہے۔
آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ نے ‘گُلال’ اور ‘شوریا’ نہیں دیکھی، تو آپ نے اداکاری کی گہرائی کو محسوس ہی نہیں کیا۔ اور اگر آپ انہیں دیکھ چکے ہیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کے کے مینن صرف ایک اداکار نہیں، وہ ایک ادارہ ہے — خاموش، سنجیدہ، اور اداکاری کی روح کے قریب ترین۔