نسیم بیگم: پاکستان کی فلمی موسیقی کی المیہ ملکہ
نسیم بیگم، جنہیں "المیہ ملکہ" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، پاکستان کی فلمی موسیقی کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ان کی آواز کا سوز و گداز اور جذباتی گہرائی نے انہیں 1960 کی دہائی میں ایک منفرد شناخت عطا کی۔
ابتدائی زندگی اور موسیقی کی تعلیم
نسیم بیگم 24 فروری 1936 کو امرتسر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا۔ انہوں نے موسیقی کی تعلیم کلاسیکل گلوکارہ مختار بیگم سے حاصل کی، جو معروف غزل گائیکہ فریدہ خانم کی بڑی بہن تھیں۔
فنی سفر کا آغاز
نسیم بیگم نے 1956 میں فلم "گڈی گڈا" سے بطور پلے بیک سنگر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ تاہم، 1958 میں فلم "بے گناہ" کے لیے گایا گیا ان کا گیت "نینوں میں جل بھر آئے" ان کی پہچان بنا۔ اس کے بعد انہوں نے "سہیلی"، "اولاد"، "شہید"، "باجی" اور "زرقا" جیسی فلموں کے لیے کئی مقبول گیت گائے۔
نمایاں گیت اور شہرت
نسیم بیگم کی آواز میں گائے گئے گیت "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے"، "کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا"، "مکھڑے پہ سہرا ڈالے آ جا او آنے والے" اور "اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو" آج بھی سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔ ان کا قومی نغمہ "اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو" پاکستانی قوم کے لیے ایک جذباتی اثاثہ ہے۔
اعزازات اور انعامات
نسیم بیگم کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں چار نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ، حکومت پاکستان نے انہیں 1965 میں "پرائیڈ آف پرفارمنس" کے اعزاز سے بھی سرفراز کیا۔
ذاتی زندگی اور وفات
نسیم بیگم نے لاہور کے معروف پبلشر دین محمد سے شادی کی اور ان کے چھ بچے ہوئے۔ بدقسمتی سے، 29 ستمبر 1971 کو دوران زچگی پیچیدگیوں کے باعث صرف 35 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انہیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
ورثہ اور یادگار
نسیم بیگم کی آواز اور ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی سننے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی بیٹی ترنم ناز نے بھی موسیقی کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی والدہ کے فن کو آگے بڑھایا۔
نسیم بیگم کی فنی خدمات اور ان کی لازوال آواز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی سالگرہ اور برسی کے موقع پر مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، جہاں ان کے گیتوں کو دوبارہ پیش کیا جاتا ہے اور ان کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
نسیم بیگم کی زندگی اور فن کا سفر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سچے جذبے اور خلوص دل سے گایا گیا ہر گیت دلوں پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔ ان کی آواز ہمیشہ پاکستانی موسیقی کی تاریخ میں ایک روشن باب کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔